- This event has passed.
Cultural Caravan Carnival
March 20, 2023
The Cultural Caravan Carnival 2023 celebrated the essence of Urdu art, immersing attendees in a rich tapestry of visual creativity. From captivating exhibitions to live painting sessions, the event highlighted the beauty of Urdu-inspired art in all forms. Each exhibit told a story, offering a unique glimpse into cultural heritage and sparking conversations around the artistry of Urdu expression. The event’s focus on art made it a standout experience, inspiring a renewed appreciation for the visual side of Urdu culture.
View Our Photos
Report prepared by Abrar Umar
ادب کو تازہ دم رہنے کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اگر بات ہو دیار غیر کی تو اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ ترویج ادب میں تقافتی پہلو نمایاں رہے اسی اہم نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے ” کلچرل کاروان ابوظبی” سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے ان مختلف طریقوں پر غور کرنا شروع کیا جن پر عمل کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں اردو بولنے اور سمجھنے والے لوگوں کو دیار غیر میں رہتے ہوئے اپنی زبان اور تہذیب سے جوڑ کر رکھا جا سکتا ہے اس سلسلے میں پہلی کاوش ۔ مشاعرہ ۔۔ ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے تو پہلے ہی دبئ اور ابوظبی کی مختلف تنظیمیں پوری دنیا میں مشہور ہیں لیکن ان مشاعروں میں بھی عوام الناس کی صرف وہی تعداد شریک ہوتی ہے جنہیں ” شعر ” سے دلچسپی ہے لیکن ” کلچرل کاروان ابوظبی” کا مطمع نظر ادب اور ثقافت ہے یعنی جُز نہیں کُل ۔۔ اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور پہلی کوشش کہی جاسکتی ہے ۔چنانچہ کلچرل کاروان ابوظبی کے روح رواں جناب سروش آصف نے سرپرست جناب ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی صاحب کی مشاورت سے طے کیا کہ کیوں نہ عوام سے ملاقات کے لیے عوامی اجتماعات میں شریک ہوا جائے اور وہاں جا کر انہیں اپنی تہذیب اور ثقافت ۔ زبان اور تمدن کی نا صرف ایک جھلک دکھائی جائے بلکہ ان کے اندر ایک شوق بھی اجاگر کیا جائے ۔ انہی دنوں
” رمضان فن بازار” کے نام سے ایک میلہ بمقام ” الریف ” ابوظبی میں منعقد ہونے جا رہا تھا چنانچہ طے کیا گیا کہ
کلچرل کاروان اس میلے میں بطور تنظیم شریک ہو گی
چنانچہ سروش آصف نے کلچرل کاروان کے اراکین سے مشاورت شروع کی صباحت عاصم واسطی صاحب کی سربراہی میں اس مقام کا دورہ کیا گیا ممکنہ سہولیات کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ اس فن میلے میں کہ جس میں مختلف کمپنیاں ۔ ریسٹورنٹ اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگ اپنے اپنے پنڈال سجائیں گے ۔ کلچرل کاروان ابوظبی بھی اسی جم غفیر میں ایک مقامِ مختص پر ڈیرا ڈالے گا اور فن میلے میں شریک ہونے والے افراد کے لیے علمی اور ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کرے گا ” رمضان فن بازار” کے نام سے یہ میلہ دو دن جاری رہنے والا تھا وقت کم اور کام زیادہ تھا چنانچہ اراکین کلچرل کاروان کی پہلی باقاعدہ میٹنگ بلائی گی اس میٹنگ میں ابوظبی سے سروش آصف ۔ حنا عباس ۔ ابرار عمر ۔ اشک الماس جبکہ دبئ اور شارجہ سے محترمہ ترنم احمد ۔ محترمہ مسکان سید ریاض اور پرتیک کھربندا شریک ہوئے میٹنگ میں طے کیا گیا کہ کلچرل کاروان ابوظبی اسی فن میلے میں جو کہ 24 اور 25 فروری کو منعقد ہونے جا رہا تھا ۔ اپنے لیے ایک مقام مخصوص کرے گا جہاں پر اردو ادب اور ہندوستان و پاکستان کی ثقافت سے جڑی اشیاء لوگوں کی دلچسپی اور توجہ کے لیے رکھی جائیں گی اس کے علاؤہ لوگوں کے اندر علمی شعور اجاگر کرنے کے لیے مختلف فلمی اور ادبی سوالات کا ایک سلسلہ تشکیل دیا جائے گا ہر سوال کے درست جواب پر جیتنے والے کو انعام سے نوازا جائے گا لیکن چونکہ فن میلے میں پاک و ہند کے علاؤہ مختلف ممالک سے بھی لوگ شریک ہو گے تو ان کی دلچسپی کے لیے مختلف عمر کے بچوں کے درمیان تصویری مقابلے کروائے جائیں گے ۔ جو کہ پینٹنگ اور ڈرائنگ کی شکل میں ہوں گے ۔ اس کے ساتھ ہی خطاطی کے زریعے مختلف رسوم میں اپنا نام یا من پسند شعر ۔ جملہ لکھوانے والوں کے لیے بھی یہ سہولت مہیا کی جائے گی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ موسیقی کی ہلکی پھلکی محفل بھی سجائی جائے گی علمی اور ادبی سوالات کو ترتیب دینے کا کام مسکان سید ریاض اور ابرار عمر کو سونپا گیا جبکہ محترمہ ترنم احمد کو سٹیج کی زمہ داری تفویض کی گئ جس میں عوام الناس سے سوالات کرنا ۔ بچوں کے لیے کہانیاں اور دیگر مشاغل شامل تھے ( لیکن یہ ذمہ داری ان کے پروگرام میں شریک ہونے کے ساتھ مشروط تھی کہ ترنم صاحبہ اس دن ایک اور تقریب کے سلسلے میں دبئ میں ہی مصروف ہو سکتی تھیں ) اگلا مرحلہ فن میلے سے ایک دن قبل اس جگہ پر اپنے اسٹال کا جائزہ لینا تھا چنانچہ 23 فروری رات 9 بجے سروش آصف احمریں نجمی ( بیگم سروش آصف) حنا عباس اور ابرار عمر مقررہ مقام پر پہنچے اور اگلے دن کا پروگرام طے گیا ۔۔ حسب اتفاق اگلے دن حنا عباس اور ابرار عمر کلچرل کاروان پنڈال لگانے کے لیے مطلوبہ سامان لے کر فن میلہ میں پہنچے اور مقررہ وقت تک انتظامات مکمل کئے اشک الماس کی شراکت سے کام جلد پایہ تکمیل تک پہنچا سروش آصف دیگر ضروری سامان کے ساتھ مع اہل و عیال تشریف لائے اور آخر کار فن میلے کا آغاز ہو گیا مسرت عباس چوہدری کے ساتھ مل کر مختلف اشیا کو پنڈال کی زینت بنایا گیا جن میں دیدہ زیب اور رنگ برنگی شال ( جن پر ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی صاحب کے والد محترم مشہور شاعر شوکت واسطی سمیت غالب اور دیگر شعرا کا کلام چھپا ہوا تھا ) تہذیبی ورثے کے طور پر مختلف گھریلو اشیاء جیسے کہ پاندان ۔ کٹوریاں اور کئ طرح کے ظروف سندھی اور سرائیکی اجرک مختلف قسم کی انگوٹھیاں ۔ قیمتی پتھر ۔ ہار اور دیگر اشیاء شامل تھیں ۔ پینٹنگ اور تصویری مقابلے کے لیے ابوظبی میں مقیم سینیئر شاعر اور آرٹسٹ جناب م ک حسرت اور محترمہ فاطمہ ۔۔ اپنی بنائ ہوئ نہایت دیدہ زیب پینٹگز کے ساتھ تشریف لائیے ماہر خطاط جناب سلیم احمد خان مع اہل و عیال دبئ سے تشریف لائے دن ڈھلنے تک عوام کا جم غفیر تھا جو کہ اس میدان کو بھر چکا تھا ہر جگہ رنگ برنگے ملبوسات لہرا رہے تھے بے شمار اسٹال ۔ کھانے پینے کی چیزیں ۔ جیولری اور کپڑوں کی دکانیں ۔ مہندی لگانے کے لیے موجود خواتین ۔ مختلف ہسپتالوں کی طرف سے تشہیری ٹیمیں اور نا جانے کیا کیا لوازمات اس ایک میدان میں جمع تھے منتظمین کی طرف سے ہر اسٹال پر بجلی اور روشنی کا معقول انتظام کیا گیا تھا ۔ ایک مرکزی مقام پر کافی بڑا اسٹیج بنایا گیا جس پر ابوظبی اور دبئ سے آنے والے مختلف گلوکار اپنے گانوں سے عوام کو محظوظ کر رہے تھے غرض اس ہرے بھرے میدان میں۔ ایک نئ دنیا آباد ہو چکی تھی ۔ کلچرل کاروان ابوظبی کے پنڈال سے یونہی بچوں کے تصویری مقابلے کا اعلان کیا گیا تو فن میلے میں موجود ہر قومیت کا بچہ کلچرل کاروان کے پنڈال کی طرف دوڑا ۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی جن کے ساتھ ان کے والدین بھی وہیں آ موجود ہوئے ہر کوئ ان مختلف اشیاء میں دلچسپی لے رہا تھا جو کہ لوگوں کے تہذیبی رجحان کو مہمیز دینے کے لیے وہاں رکھی گئیں تھیں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو بڑی اور چھوٹی عمر کے حساب سے دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا کارڈر تمام قسم کے رنگ پنسلیں اور دیگر ضروری اشیاء کلچرل کاروان کی طرف سے مہیا کی گئیں تھیں ہر بچہ اپنے اندر چھپے فنکار کو باہر لانے میں مصروف عمل تھا جن کی مدد اور راہنمائی کے لیے م ک حسرت ۔ فاطمہ اور امبریں نجمی موجود تھیں دوسری طرف سلیم احمد خان صاحب کے پاس اردو رسم الخط میں اپنا نام لکھوانے والوں کا رش لگا ہوا تھا لوگ اپنے اپنے پسندیدہ اشعار اور اقوال بھی لکھوا رہے تھے اسی دوران لوگوں سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا گیا چنانچہ مسرت عباس چوہدری ۔ حنا عباس ابرار عمر اور سروش آصف مائیک اور کیمرے سنبھالے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گئے یہ ایک منفرد تجربہ تھا جسے وہاں موجود لوگوں کے روئیے سے محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ گروپس کی شکل میں پھرنے والی خواتین ۔ ٹولیوں میں بیٹھے مرد حضرات اپنے اپنے اسٹال سجائے ہر عمر کے لوگوں ۔اور فیملیز سے مختلف ادبی سوال کئے گئے درست جواب دینے والے کو حنا عباس اور سروش آصف موقع پر ہی کوئ نا کوئ انعام دے رہے تھے ہر کوئ منتظر تھا کہ اگلا سوال اس سے کیا جائے ( ویڈیوز کلچرل کاروان کے آفیشل پیج پر اپلوڈ ہو رہی ہیں ) اسی دوران تصویری مقابلے میں جیتنے والے بچوں کا انتخاب ہو چکا تھا چنانچہ اسٹیج سے جناب م ک حسرت ۔ محترمہ فاطمہ۔ سروش آصف نے پہلی ۔ دوسری اور تیسری پوزیشن کے بچوں کے ناموں کا اعلان کیا اس موقع پر بچوں کے والدین سمیت دیگر افراد کی خوشی دیدنی تھی ایک ماحول تھا جو رنگ اور خوشیوں میں بھیگا ہوا تھا چونکہ یہ پروگرام بچوں کا تھا اس لیے اس تقریب انعام کی نظامت سروش آصف کی صاحب زادی زنیرہ کے ذمہ لگائ گئ تھی جس نے کمال ذہانت اور عمدگی سے اسے انجام دیا ہر جیتنے والے بچے کو انعام سے نوازا گیا کلچرل کاروان کے رکن حسنین علی حسین نے اسٹیج سے اپنے فن گلوکاری کا جادو جگایا اور سننے والوں کو جھومنے پر مجبور کر دیا اس تمام گہما گہمی میں مسرت عباس چوہدری ویڈیوز بنانے کے ساتھ لوگوں کے تاثرات جاننے کے لیے ان کے انٹرویوز کرتے رہے اس تقریب کے لیے رضا احمد رضا خاص طور پر تشریف لائے اپنی جاب کے اوقات کار کے سبب وہ زیادہ دیر نہیں رک سکے رات گئے رنگ و نور کا یہ سیلاب عارضی طور پر تھما کہ اگلے دن پھر شروع ہونا تھا اگلے دن 25 فروری کو سب سے پہلے دبئ سے خصوصی آمد ہوئ محترمہ مسکان سید ریاض کی ۔ ترنم احمد صاحبہ اپنی مصروفیات کے باعث تشریف تو نہ لا سکیں لیکن وہ ہر مشورے اور گفتگو میں شریک رہیں اس دن اسٹال کی زمہ داری مسکان سید کے سر تھی جنہوں نے اسٹال سجانے سے آغاز کیا چونکہ تمام پروگرام وقت کے حساب سے طے شدہ تھے لہذا جیسے جیسے دوسرے ساتھی تشریف لاتے گئے کلچرل کاروان کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا گیا سلیم احمد خان ۔ م ک حسرت محترمہ فاطمہ امبریں نجمی سروش آصف ابرار عمر مسرت عباس چوہدری اشک الماس اور حسنین علی حسین اپنی اپنی زمہ داریوں میں لگ چکے تھے کلچرل کاروان ابوظبی کی طرف سے ایک پمفلٹ شائع کیا گیا تھا جس میں کلچرل کاروان ابوظبی کی مختلف سرگرمیوں۔ اہداف اور مقاصد پر روشنی ڈالی گئ تھی ۔ مسکان سید ریاض اور حنا عباس صاحبہ نے دلچسپی لینے والے افراد تک یہ پمفلٹ پہنچائے کہ یہ صرف پمفلٹ نہیں بلکہ کلچرل کاروان ابوظبی کے ساتھ جڑنے کا ایک ذریعہ بھی تھا خواتین و حضرات نے ذوق و شوق سے اس ادبی تنظیم کے ساتھ شامل ہونے کے لیے اپنے کوائف جمع کروائے ہر اسٹال پر خریداروں کا رش آور بچوں کا گھمسان تھا کلچرل کاروان ابوظبی کے بینر سے آج پھر تصویری مقابلے کا اعلان کیا گیا ۔۔ ہر جیتنے والے بچوں میں انعامات تقسیم کیے گئے مسکان سید ریاض حنا عباس ابرار عمر مسرت عباس کی ٹیم آج بھی گھوم پھر کے لوگوں کے تاثرات اور ادبی رجحانات کا جائزہ لیتی رہی یہ ٹیم ابوظبی میں ہونے والے مشاعرے اور مختلف ادبی تقریبات بابت لوگوں کو آگاہی دیتی رہی لوگ جوق در جوق کلچرل کاروان ابوظبی کے پنڈال میں آتے مختلف علاقوں کی ثقافت کا نظارہ کرتے تنظیم کے اغراض ومقاصد سے آگاہی حاصل کرتے رہے ۔ غرض کہ توقع سے زیادہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلچرل کاروان ابوظبی نے اس دو روزہ فن میلے کو الوادع کہا ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی صاحب کی طرف سے کلچرل کاروان ابوظبی کے تمام اراکین کو اس منفرد اور اہم کامیابی پر مبارکباد دی گئ اور کہا کہ کلچرل کاروان ابوظبی ادب کی ترقی کے لیے ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے یقینا فن میلہ اور اس طرح کے دیگر عوامی اجتماعات میں شریک ہو کر لوگوں کو ادب اور ثقافت کی جانب مائل کرنا ایک ایسا درخت لگانے کی ماند ہے جس کا پھل آنے والی نسلیں کھائیں گی کلچرل کاروان ابوظبی آئیندہ بھی ایسی ہی ادبی خدمات انجام دیتا رہے گا
Details
- Date:
- March 20, 2023
- Event Category:
- Cultural Festivals